Saturday, 21 July 2018

گاۓ کے نام پر الور میں ایک اور مسلمان کا قتل، دوسرا پہلو خان

موقعہ واردات 


کل رات گاۓ کے نام پر ایک اور مسلمان کو قتل کر دیا گیا- واقعہ اسی الور کا ہے جہاں پچھلے سال پہلو خان کو ہلاک کر دیا گیا تھا- مرنے والے کا نام اکبر خان ہے جسکی عمر اٹھائیس سال بتائی جا رہی ہے- اس معاملے میں پولیس ابھی تک دو 
لوگوں کو حراست میں لیا ہے اور صوبہ کی وزیر اعلی وسندھرا راجے نے قتل کی مذمت کی ہے-

پہلو خان


اس طرح کے واقعات اس انداز میں ہو رہے ہیں جیسے انکے پیچھے کوئی ذہن کام کر رہا ہے- کچھ مثالوں سے سمجھتے ہیں – جس دن سپریم کورٹ بھیڑ کے ذریعہ ہو رہے اموات پر نکتہ چینی کرتا ہے اسی کے کل ہو کر سوامی اگنویش کو ایک ہندو مجمع کے ذریعہ بری طرح پیٹ دیا جاتا ہے- کل ہی وزیراعظم مودی نے پارلیامنٹ میں اپنی ذمّہ داری صوبائی حکومتوں کو سونپتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومتیں اس کو روکیں اور کل ہی ایک ہندو مجمع نے اکبر خان کو ہلاک کر دیا- ایسا لگتا ہے جیسے ایک خاص قسم کے مجمع کو یہ پہلے سے ہی که دیا گیا ہو کہ اعلی عہدوں پر بیٹھا جب مذمت کرے تو اسکا الٹا مطلب سمجھا جاۓ- نتیجہ کی فکر نہ کی جائے کیونکہ وہاں پھول مالا لے کر خیر مقدم کرنے کے لئے لوگوں کو پہلے سے ہی رکھ دیا گیا ہے-



مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ گاۓ سے خود کو دور رکھیں چاہے وہ انکی تجارت کرتے ہوں یا انہیں پالتے ہوں- اگر میں شریعت میں دخل دے سکتا تو گاۓ کو خنزیر کی طرح حرام قرار دے دیتا- حالات کو دیکھتے ہوئے گاۓ سے دوری بنانا ہی فائدہ مند ہوگا-
____________________________________________

یہ بھی پڑھیں:




Thursday, 28 June 2018

صدر جمہوریہ اور انکی اہلیہ کے ساتھ مندر کے خادمین کی بدسلوکی



یہ واقعہ مارچ کا ہے مگر عوام میں یہ خبر ابھی آئی ہے- ١٨ مارچ کو صدر جمہوریہ رامناتھ کووند اپنی اہلیہ سویتا کووند کے ساتھ اڑیسہ کے پوری میں مشہور مندر جگن ناتھ مندر کی زیارت کو گئے تھے- یہ الزام ہے کہ مندر کے خادمین نے انکو گربھ گرہ میں جانے سے روکا اور انکی اہلیہ کے ساتھ زیادتی کی-



 اس بات کا ذکر ٢٠ مارچ کی میٹنگ کی رجسٹر میں بھی موجود ہے- مندروں اور مزاروں کے گربھ میں ایسا کیا ہوتا ہے پتا نہیں کہ برہمن اور مجاور عام لوگوں کو وہاں نہیں جانے دیتے- ایسا ممکن ہے کہ اس خاص جگہ پر صرف برہمن ہی جا سکتے ہوں جسکی وجہ سے انہیں وہاں جانے سے روکا گیا ہو- واضح ہو کہ صدر جمہوریہ کو بھاجپا نے ڈنکے کی چوٹ پر دلت ثابت کیا ہے-



مقامی انتظامیہ نے اس معاملے میں تفتیش کا بھروسہ دلایا ہے- معاملہ اس وقت سرخیوں میں آیا جب صدر جمہوریہ کے دفتر سے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو خط ارسال کیا گیا اور انکی اہلیہ کے ساتھ ہوئی بدسلوکی کا ذکر کیا گیا- مندر انتظامیہ نے بھی بدسلوکی کو قبول کر لیا ہے مگر اسکی تفصیل دینے سے انکار کر دیا ہے-
__________________________________________

Wednesday, 27 June 2018

سنبت پاترا بچہ ہے، ہمارا مقابلہ اسکے باپ سے ہے: اویسی



آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور حیدرآباد سے رکن پارلیامنٹ اسد الدین اویسی نے پرسوں مہاراشٹر میں ایک بیان دیا تھا جس کی گونج کل دن بھر ہندوستانی ٹی وی چینلوں پر سنائی دیتی رہی اور اس پر بحث کا دور چلتا رہا- اسی بیان کے جواب میں بھاجپا کے ملکی سطح کے نمائندے سنبت پاترا نے اویسی کو نیو جناح قرار دے دیا جس کے جواب میں اویسی نے سنبت پاترا کو بچہ کہ دیا-



دراصل ایک مجمع کو خطاب کرتے ہوئے ایسی نے مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ مسلمان ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے مسلم نمائندے کو ووٹ کریں اور اپنی سیاسی موجودگی درج کریں. اس بیان نے ہندوستان کی سیاست میں ایک زلزلہ برپا کر دیا ہے- سنبت پاترا نے اسی بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کیا اور کہا کہ موجودہ سیاسی ماحول کو دیکھتے ہوئے میں یہ کہ سکتا ہوں کہ اویسی نیو جناح ہیں اور ان کا یہ بیان قابل مذمت ہے، مسلمانوں کو ملک کی دھارا سے بہکانا تشویشناک ہے- اویسی ہمیشہ ایسا کرتے رہے ہیں.



پاترا نے شاید اویسی کو کانگریس کا لیڈر سمجھ لیا جسے وہ ٹی وی پر اپنی بکواسوں سے بولنے نہیں دیتا- اسے شاید نہیں معلوم تھا کہ اویسی ایک حاضر جواب اور تعلیم یافتہ لیڈر ہیں. فورا ہی اویسی نے پاترا کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاترا ابھی بچہ ہے اور ہمارا مقابلہ اسکے باپ سے ہے- اویسی کا مسلمانوں سے اپیل صحیح معنوں میں وقت کی ایک اہم ضرورت ہے- مودی نے کچھ بھی نہیں کیا پھر بھی ہر ہندو آر ایس ایس کا غلام بن گیا ہے ایسے میں اگر ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو مسلمانوں کو بکاؤ مولاناؤں سے دور رہنا ہوگا اور اپنی ایک شناخت بنانی ہوگی-
_______________________________________

اپنا رد عمل ضرور دیں.

میڈیا سائٹس سے کیوں ہٹا دی جاتی ہیں امت شاہ سے جڑی خبریں؟


ہندوستان کی سیاست میں امت شاہ ایک ایسا نام بنتا جا رہا ہے جسکے راستے میں جو بھی آتا ہے مٹا دیا جاتا ہے. حالیہ معاملہ 
نوٹ بندی سے جڑا ہوا ہے جس میں امت شاہ کا نام آیا ہے مگر ملک کی کچھ نامی میڈیا ہاؤس نے اس خبر کو شائع کرنے کے بعد بنا کسی وضاحت کے اپنی سائٹ سے ہٹا دیا. گزشتہ دنوں ہندوستان کے ایک نامور جج 'لویا' کی موت ہو گئی تھی- جنکی موت کو زبردستی قدرتی موت قرار دے دیا گیا تھا جبکہ حالات و کوائف اسکے خلاف تھے- واضح رہے کہ جج لویا امت شاہ سے جڑی ایک معاملے کی سماعت کر رہے تھے، معاملہ تھا سہراب الدین شیخ انکاؤنٹر جو فرضی ثابت ہو چکا ہے اور امت شاہ اس میں ملزم ہیں. سہراب الدین شیخ انکاؤنٹر معاملے میں اب تک درجنوں پولیس افسر اور ججوں کے تبادلے ہو چکے ہیں—
ہندوستان کے ہندو نوجوانوں کی ذہنیت اتنی گندی ہو چکی ہے کہ انہیں اب فرضی خبروں میں ملک کا مستقبل نظر آنے لگا ہے – یا تو یہ نوجوان بیوقوف ہیں یا انکی ذہنوں کو مسموم کر دیا گیا ہے- چونکہ انہیں جھوٹی خبریں پسند آنے لگی ہیں اسلئے ہندوستانی میڈیا نے بھی جھوٹی خبریں پروسنی شروع کر دی ہیں. جیسے فحاشی نوجوانوں کو لبھانے لگی تو فلم والوں نے فحاشی کا بازار شروع کر دیا ویسے ہی اب میڈیا نے فرضی خبروں کا بازار شروع کر دیا ہے- میں سوشل سائٹ کی بات نہیں کر رہا میں مستند میڈیا کی بات کر رہا ہوں- حد تو تب ہو گئی جب ہندوستان کی حکومت نے اپنی سائٹ پر فرضی اور غلط مواد ڈالنی شروع کر دی-


آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال نریندر مودی نے اچانک پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹ بند کر دیئے تھے اور پورے ملک کو قطار میں لا کھڑا کیا تھا- اس وقت گجرات کی ایک سہکاری بینک جو امت شاہ کی نگرانی میں کام کرتا ہے اس میں سات سو چھیالیس کروڑ کے وہ نوٹ جمع ہوئے جو بند ہو چکے تھے – جس تاریخ کو یہ رقم جمع کی گئی اسی دن یہ سرکاری اعلان ہوا کہ اب کوئی سہکاری بینک میں پیسہ جمع نہیں کریگا کیونکہ اس سے خرد برد ہونے کا ڈر ہے- یہ جانکاری تب ملی جب ایک آرٹی آئی ورکر نے اس کے متعلق سرکار سے جانکاری طلب کی- اس خبر کو نیوز ایجنسی آئی اے این ایس نے شائع کیا-


نیوز ایجنسی آئی اے این ایس کی اس خبر کو تمام میڈیا والوں نے اپنے سائٹ پر شائع کیا مگر کچھ ہی گھنٹوں کے بعد یہ خبر ان سائٹس سے ہٹا لی گئیں – جن میڈیا کمپنیوں نے خبریں غائب کر دیں ان میں نیوز١٨، فرسٹ پوسٹ اور نیو انڈین ایکسپریس شامل ہیں- اس دھوکے بازی کو مشہور نیوز پورٹل د وائر نے اجاگر کیا ہے- د وائر نے ان میڈیا والوں کو میل بھی کیا ہے کہ اسکی وضاحت کریں مگر اب تک کوئی جواب نہیں ملا ہے-


د وائر نے لکھا ہے کہ ایسا پہلے بھی کئی بار ہوا ہے جب میڈیا نے پہلے خبریں شائع کی ہیں اور انہیں غائب کر دیا ہے- جولائی ٢٠١٧ میں ایک خبر آئی تھی کہ امت شاہ کی دولت میں ٣٠٠ فیصد کا اضافہ ہو گیا ہے- اس خبر کو ٹائمز اف انڈیا نے شائع کیا اور کچھ ہی گھنٹوں کے بعد اسے ہٹا دیا گیا- اسی طرح جب اسمرتی ایرانی نے اپنے حلفیہ بیان میں کہا تھا کہ میں نے بی کام پاس نہیں کیا ہے تو اس خبر کو میڈیا نے پہلے شائع کیا اور پھر ہٹا لیا-
ملک میں ایک ایسے قانون کی ضرورت ہے جس میں میڈیا پر لگام لگانے کی کچھ تعزیرات مقرر ہوں تاکہ کوئی میڈیا کسی خبر کو شائع کرنے کے بعد ہٹا نہ سکے-
_________________________________________________

اردو کا فروغ ہماری ذمہداری ہے اسلئے اہم خبروں کے لئے اردو سائٹس کو بک مارک کریں- ہر خبر پر آپ کی رہنمائی چاہئے-


Monday, 7 May 2018

ہندوستان میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی خطرے میں

ہریانہ کا وزیراعلی کھتر

ویسے تو ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے مگر صرف کاغذوں میں جمہوریت قید ہے- ٢٠١٤ کے بعد ہندوستان کے جن ریاستوں میں ہندو دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کی حکومت بنی ہے وہاں مسلمانوں کی حالت بالکل ویسی ہی ہے جیسی اسلام کے ابتدائی دنوں میں مکہ میں تھی- گاۓ کے نام پر سینکڑوں مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا- جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں جبرا انہیں ہندو بنا دیا گیا- داڑھی رکھے بزرگ لوگوں کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں اور اب حکومت کا فرمان ہے کہ مسلمان جمعہ کی نماز کھلے میں نہ ادا کریں



یہ فرعونی فرمان ہریانہ کے وزیر اعلی منوہر لال کھٹر نے جاری کئے ہیں- صوبہ ہریانہ میں ہندو دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کی حکومت ہے جہاں آئے دن مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں- پورا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب پچھلے جمعہ کو ایک میدان میں کچھ مسلمان نماز ادا کرنے جمع ہے- اسی بیچ کچھ ہندو دہشت گرد جے شری رام کے نعرے لگاتے ہویے آ گئے اور لوگوں کو نماز ادا نہیں کرنے دیا- پولیس میں اس واقعہ کی شکایت کی گئی تو پولیس ان دہشت گردوں کو گرفتار کیا مگر کچھ ہی گھنٹوں میں انہیں چھوڑ دیا گیا

نمازیوں کو بھگاتے ہندو دہشت گرد


پولیس کی گرفت سے آزاد ہوتے ہی انہوں نے یہ اعلان کرنا شروع کر دیا گیا کہ ہم مسلمانوں کو کھلے میں نماز نہیں ادا کرنے دینگے- میڈیا کے ذریعہ اسکی وجہ پوچھے جانے پر انکا کہنا تھا کہ یہ سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں- دار اصل یہ بالکل ویسا ہی سوچتے ہیں جو انکے مذہب میں آزادی ہے کہ جہاں چاہو زمین قبضہ کر کے مندر بنا ڈالو- انکو شاید یہ نہیں پتا کہ مسجد کسی قبضے والی جگہ پر نہیں بنائی جا سکتی

پچھلے ہفتے ہی ان ہندو دہشت گردوں نے دہلی کے صفدرجنگ علاقے میں واقع ایک مقبرے کو قبضہ کر کے اسے مندر میں تبدیل کر دیا جبکہ اس مقبرہ کے پاس محکمہ آثار قدیمہ کا بورڈ بھی لگا تھا کہ یہ مقبرہ مغل بادشاہوں کا ہے- اس معاملے میں ریاستی اور مرکزی حکومتیں دونوں خاموش ہیں

وہ مقبرہ جسے ہندوؤں نے مندر بنا دیا


دوسری اقلیتیں


مسلمانوں کے علاوہ دوسری اقلیتیں بھی ان ہندو دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں- ابھی کل ہی دہلی کے مشہور کالج سینٹ اسٹیفن میں موجود گرجا گھر پر ان دہشت گردوں نے لکھ دیا کہ یہاں مندر بنےگا- کالج انتظامیہ نے پولیس میں اسکی شکایت کی ہے مگر کچھ نہیں ہوگا

مسلمانوں کی اس حالت کا ذمہ دار کون؟


جب مسلمان صرف جمعہ کی نماز تک محدود ہو جاینگے تو الله ایسے حالت پیدا کر دینگے کہ یہ جمعہ بھی ادا نہیں کر سکتے- جب جب مسلمانوں نے الله کی نافرمانی کی ہے تب تب الله نے ان پر ظالم حکمران مسلط کیا ہے- یہ الله کا ایک اشارہ ہے کہ اب بھی راستے پر آ جاؤ
_____________________________________________________

مختلف جگہوں سے مسلمانوں کے حالت پر اپنا تبصرہ اور تحریر ہمیں بھیجیں، ایک دوسرے کے حالت سے آگاہی ضروری ہے- قوم کو رہ راست پر لانے والے مضامین بھی بھیجیں

Thursday, 19 April 2018

برطانیہ میں مودی کے خلاف پوسٹر لگے


کل ہندوستان کی پوری میڈیا مودی کے قصیدے پڑھنے میں لگی رہی مگر کسی کو وہ بینر اور پوسٹر نہیں دکھے جو مودی کی برطانیہ سفر کے خلاف لگائے گئے تھے- مودی کی باتیں پورے ہندوستان کو دکھائی گیئں جو پوری کی پوری جھوٹ پر مبنی تھیں. مودی دراصل یہ کہنا چاہتے تھے کہ ان چار سالوں میں ملک بس چاند پر جاتے جاتے رہ گیا مطلب ایک بار اور انہیں حکومت چاہئے تاکہ ملک کو چاند تک لے جایا جا سکے

برطانیہ میں لگے پوسٹروں پر 'مودی ناٹ ویلکم' لکھے تھے اور اسکے وجوہات بھی لکھے تھے- ملک میں اقلیتوں پر ہو رہے مظالم، دلتوں پر ہو رہے رہے ظلم، ملک میں بچیوں کے ساتھ عصمت دری اور مودی کا ہٹلر کا حمایتی ہونا اس احتجاج کے وجوہات بتائے گئے تھے. دراصل پچھلے کچھ دنوں میں ہندوستان میں دلتوں پر مظالم بڑھے ہیں اور ساتھ ساتھ اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو گائے کے نام پر قتل کیا گیا ہے اور سرکار نے انکے اوپر کوئی کاروائی نہیں کی ہے

پچھلے ہفتے جموں و کشمیر میں ایک آٹھ سال کی معصوم بچی کی ایک مندر میں عصمت دری کی گئی اور جب پولیس کاروائی کرنے پہنچی تو ہندو لوگوں نے جانچ میں مزاحمت پیدا کی گئی. معاملہ جب میڈیا میں آیا تو پوری دنیا کانپ گئی مگر مودی کی سیاسی پارٹی اب بھی مجرموں کو بچانے میں لگی ہے. سرکار کے طرف سے کاروائی کی بات تو ہو رہی ہے مگر انکو سزا مل پائیگی یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ مودی کی پارٹی کے جو صدر ہیں ان پر کی قتل کے مقدمے ہیں اور ان مقدموں کی شنوائی کر رہے ججوں کا ہی قتل ہو چکا ہے. مکہ مسجد بم دھماکہ، ممبئی دھماکہ، اجمیر دھماکہ میں ملوث ہندو دہشت گرد ملزمین کو سرکار پہلے ہی رہا کر چکی ہے
________________________________________________________

Wednesday, 18 April 2018

لڑکی کے ماں باپ کے ذریعہ عصمت دری کے مجرمین سے پیسے لیکر معاملہ رفع دفع کرنے کا الزام


آج پورے ملک میں جہاں ایک طرف عصمت دری کے مجرم کو سخت سے سخت سزا دینے کے قانون پر بات چل رہی ہے وہیں دوسری طرف دہلی سے ایک ایسی خبر آئی ہے کہ جسکو سن کر ہر ماں باپ کا سر شرم سے جھک جائیگا- دنیا کا ہر ماں باپ اپنی آخری سانس تک مجرم کو سزا دلانے کے لئے اپنی ہر کوشش کرتا ہے-

پچھلے سال اگست میں دہلی سے ایک لڑکی اچانک غائب ہو گئی تھی- سات دن کے بعد جب لڑکی واپس آئی تھی تو بتایا تھا کہ اسکو اغوا کر لیا گیا تھا اور اس دوران  اسکے ساتھ عصمت دری بھی کی گئی- لڑکی کے بیان کے مطابق دہلی پولیس نے دو لوگوں کو گرفتار کیا تھا- آج وہ لڑکی ایک بار پھر اسی پولیس کے سامنے کھڑی ہے- اس بار اسکا الزام ہے کہ اسکے ماں باپ مجرمین سے پانچ لاکھ روپیہ لے کر معاملہ رفع دفع کرنے پر مجبور کر رہے ہیں- لڑکی کی شکایت پر پولیس نے اسکی ماں کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ باپ فرار ہے- لڑکی کی ہمت کو سلام-
(دکن کرونکل سے لیا گیا)
___________________________________________________________