Friday, 16 February 2018

پانچ دن میں بے نقاب ہو گئے رام بھکت مولانا ندوی - پانچ سو کروڑ میں بکے تھے

google 

اگر آپ نے 'داستان ایمان فروشوں کی' نہیں پڑھا ہے تو آج ہی پڑھیں اور اسمیں ایک نیا نام بھی جوڑ لیں- مولانا سلمان ندوی. آج سے پانچ دن پہلے جناب اچانک رونما ہوئے اور لوگوں سے اپیل کی کہ مسلمان بابری مسجد سے دست بردار ہو جایئں اور بدلے میں ایودھیا سے باہر کہیں زمین لے لیں اور شاندار مسجد بنائیں یہی راستہ ہے اختلاف سے بچنے کا- مذکورہ بیان کے پاداش میں مسلم پرسنل لا بورڈ نے مولانا کو باہر کا راستہ دکھا دیا - الله جسکو ذلیل کرنا چاہتا ہے اسے دنیا میں ذلیل کر دیتا ہے- ابھی پانچ ہی دن ہی ہوئے ہیں کہ یہ راز کھل کر سامنے آ گیا کہ مولانا نے پانچ سو کروڑ میں یہ سارا سودہ کیا تھا اور ممبر پارلیامنٹ بننا چاہتے تھے

بابری مسجد اور رام مندر کا معاملہ آج سے صدیوں پرانا ہے بہت زیادہ تاریخ تو مجھے نہیں معلوم مگر اتنا معلوم ہے کہ کبھی رام مندر کو توڑ کر وہاں مسجد بنائی گئی تھی- جہاں تک مجھے اسلام کی جانکاری ہے ایسا کبھی ممکن ہی نہیں کہ  کسی ناپاک جگہ پر یا جبرا کسی کی زمین قبضہ کر مسجد بنانے کی اجازت اسلام نے دیا ہے  ظاہر سی بات ہے اس وقت بھی اسلامی فقہ کے جانکار رہے ہونگے جب مسجد کو مندر کی جگہ ناجائز طریقے سے بنایا گیا ہوگا. ہمارا ایمان کبھی اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ ایسا ہوا ہوگا. بہرحال پچھلے پانچ سو سالوں سے وہاں مسجد کا وجود تھی جسے ١٩٩٢ میں ہندوؤں نے جبرا اپنی طاقت کی بنیاد پر گرا کر وہاں بھگوان رام کی مورتیاں رکھ دیں اور ہندوستان کی سیکولر کہا جانے والا قانون تماشا دیکھتا رہا آج تک ملزمین کو سزا بھی نہیں ہوئی. 


google 

ہندوستان میں مسلمان مجبور ہے کیونکہ انکی تعداد اتنی نہیں ہے کہ طاقت کے بھروسے اپنے مساجد اور اداروں کی حفاظت کر سکے مگر اتنی کم تعداد بھی نہیں ہے کہ سب کچھ ہوتا ہوا چپ چاپ دیکھتا رہے. مسلمانوں کی قیادت کرنے والے رہنماؤں نے انہیں اور اور کمزور بنانے کا عزم کر رکھا ہے . مسلمان بھی اتنی جماعتوں میں بکھرے ہیں کہ انکا اپنا کوئی وجود بھی نہیں ہے. ایک رہنما اپنے مفاد کے لئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہی نہیں ہونے دیتا اور بیوقوف مسلمان بھی خود فیصلے نہیں لے سکتا. اگر آزادی سے قبل مسلمان ایک پارٹی کے تلے جمع نہیں ہوتے تو کیا پاکستان کا وجود ممکن تھا؟ ایک رہنما ایک مسلم پارٹی بنا کر آتا ہے تو دوسری پارٹیوں میں سیاسی روٹیاں سینک رہے اعظم خان اور سلمان خورشید جیسے رہنما اس پر طرح طرح کے الزامات لگانا شروع کر دیتے ہیں. مگر اب وقت آ گیا ہے کہ مسلمانوں کو ایک اپنی پارٹی کے تحت جمع ہونا پڑیگا ورنہ بچا ہوا وجود بھی کھونا پڑیگا 


google 

آخر مسلمان کب تک صلح حدیبیہ جیسے فیصلوں کے لئے مجبور رہیگا؟ اب تو ابابیل کی کوئی فوج بھی نہیں آنے والی جو مسلمانوں کو بچا لے. اسلئے اپنے وجود کی جنگ الله پر یقین رکھتے ہوئے خود ہی لڑنی ہوگی- مولانا سلمان ندوی نے پانچ سو کروڑ میں پوری قوم کا سودہ کر لیا کل کوئی اور نمودار ہوگا جو ہمیں کسی اور کے ہاتھوں بیچ دیگا. یہ بات سچ ہے کہ اگر ہندو جبرا مندر بنانا چاہیں تو ہم نہیں روک سکتے مگر کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ واہ ہمارے ساتھ جو کرنا چاہیں کریں ہم خوشی خوشی راضی ہوں؟ حضور صلّی الله علیہو سلم نے بھی جنگیں ہاری ہیں مگر کیا صحابہ نے اپنے آپ کو کافروں کے حوالے کر دیا؟ لاکھوں ہمارے اسلاف شہید ہو گئے مگر کیا ہمت ہار کر اپنے کو حوالے کر دیا؟ یہ سلمان ندوی جیسے ایمان فروش مولانا ہمیں کس دین کی تعلیم دے رہے ہیں؟ 

انکی تعداد زیادہ ہے ہمیں مار کر مندر بنا لیں گے مگر ہم اپنا حق نہیں چھوڑینگے. الله نے اگر قسمت میں لڑ کر مرنا ہی لکھا ہے تو کیسے بدل سکتے ہیں؟ کل پوری ہندو قوم جمع ہو جاۓ اور بولے اسلام چھوڑ دو تو کیا چھوڑ دوگے؟ اگر ایمان اتنا ہی کمزور ہے تو پھر وسیم رضوی جیسے اور رضوان جیسے ایمان فروشوں کی طرح اپنے ایمان کا سودا کر لو. وہ جس قوم سے تعلق رکھتے ہیں انکا تو وجود ہی اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے ہوا ہے مگر سلمان ندوی پر جتنی لعنت بھیجو کم ہے. معاملہ عدالت میں ہے اور معلوم ہے کہ فیصلہ ہمارے حق میں نہیں آنے والا اگر آ گیا تب بھی جیسے مسجد گرا دی گئی . اور قانون دیکھتا رہ گیا ویسے ہی مندر بن جاےگا اور قانون دیکھتا رہیگا مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم ایمان فروش ہو جائیں. کم سے کم دیکھیں تو قانون کتنا طاقتور ہے اور کتنا انصاف پسند

صرف بابری مسجد کا سوال ہی نہیں ہے اسکے بعد بھی تین سو سے زائد مسجدیں انکے نشانے پر ہیں آخر ایک سلمان ندوی کتنی بار بکینگے؟ اسلئے مسلمانوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ الله کے ہاتھ میں چھوڑ کر اپنی ایماندارانہ کوششیں جاری رکھنی ہیں. ابھی حال ہی میں راجستھان میں ایک واقعہ پیش ہوا جسمیں ایک ہندو خنزیر ایک مسلم فقیر کو بے رحمی سے مارتا ہوا دیکھا گیا تھا . سلمان ندوی جیسے ایمان فروشوں کو اس مجاہد فقیر سے سبق لینے کی ضرورت ہے جو اکیلا مار کھاتا رہا مگر اسنے گندا نعرہ نہیں بولا. مرنے کو تیار تھا مگر جے شری رام نہیں بولا. ایمان اسکو کہتے ہیں جسے پیسوں کی لالچ نہیں جان کی پرواہ نہیں مگر ایمان کی حفاظت کا احترام ہے

دوستوں ایک روایت بھی ہے کہ اگر جان مشکل میں ہو تو کیا اوپر کے من سے دوسرے مذہب کے خود ساختہ معبودوں کی عبادت کی جا سکتی ہے؟ اسکے جواب میں نبی صلعم کا جواب تھا نہیں اس سے بہتر ہے مر جاؤ. مگر عبادت کسے کہتے ہیں پہلے یہ تو مسلمانوں کو سمجھ میں آنی چاہئے. ہم تو کتوں کی قبر بنا کر سجدہ کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ عبادت تھوڑی ہے یہ عقیدت ہے. نعوذ بالله
___________________________________





Share:

No comments:

Post a Comment